Translate

Search This Blog

Friday, November 10, 2023

تِل - Sesamum indicum Linn




Sesame Seeds, Tillon Kay Laddoo, Till, Tillon Kay Faiday

 سردیوں کی آمد آمد ہےاور اسی حوالے سے  قدرت نے ایک بہترین غذائی تحفہ تل کی شکل میں دیاہے  " تل کھاوسردی بھگاؤ "  آئیے تل کے بارےمیں یونانی اور آیورویدک طب کے حوالے سے تفصیل سے جانتے ہیں. 

مختلف نام:-

اردو میں تِل ۔ہندی میں تل۔سنسکرت میں تِل۔گجراتی میں تِل۔بنگالی میں تِل گاچھ۔مرہٹی میں تل۔فارسی میں کُنجد۔عربی میں سمسم۔لاطینی سیسا مم انڈی کم(Sesamum indicum Linn)اور انگریزی میں سی سامم(Seasame, Benne, Gingelly)۔

شناخت:-

روغنی بیج ہیں۔ہر سال اس کے پودوں کی کاشت ہوتی ہے۔اس کا پوداایک میٹر کے لگ بھگ ہوتا  ہے جس میں کنول جیسا پھول لگتا ہے جو سوکھ کر اوپر سے پھٹ جاتا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے بیضوی کالے اور سفید بیج نکلتے ہیں۔طبی نقطئہ نظر سے سیاہ تل زیادہ مفید ہوتے ہیں۔

مزاج:-گرم وتر  درجہ دوم۔

مقدار خوراک:-6گرام سے 10 گرام تک۔

نفع خاص:- مقوی باہ اور مسمن بدن،

مضر:- دیر ہضم۔

بدل:- السی

مصلح:- بریان کرنا،شہد خالصاور قند سیاہ

تلوں میں اجزائے لحمیہ  (پروٹین)28فیصد،اجزاء نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)25فیصد،اجزاء شحمیہ(فیٹ) 43فیصد ،حیاتین (وٹامن)اے وبی اچھی خاصی مقدار میں ہوتے ہیں۔تلوں میں لوہا کیلشیم بھی ہوتا ہے۔اس میں تیل کی مقدار48فیصدی پائی جاتاہے۔دماغ کے اعصاب اور عضلات  کو طاقت دینے کے لئے لیسی تھین (Lecithin)بھی تل میں پایا جاتاہے۔

فوائد :-  یہ دیر ہضم ہوتے ہیں اس لئے اس کی اصلاح ان کو بھون کر شہد خالص یا قند سفید ملاکر کی جاتی ہے تاکہ یہ جلد ہضم ہو سکیں۔ تلوں کے  ہر روز مالش کرنے سے بڑھاپا ،تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور بینائی  تیز ہو جاتی ہے ۔مسمّن بدن (بدن کو موٹا کرنے والا )،مقوی ،محلل اورام (ورم کو تحلیل کرنے والا)،حابس خون  بواسیر (بواسیر کے خون کوروکنے والا)،مرطب اور ملین جلد ہے(کھال کو تر اور نرم کرنے والا)۔ 

تلوں کا تیل گھی کی مانند غذاؤں میں بکثرت استعمال کیا جاتاہے ۔یہ بدن کو فربہ کرتا ہے۔اور خشکی کو دور کرتا ہے۔بطور دوا خشک کھانسی اور دمہ میں استعمال ہوتا ہے۔بدن کی خشکی اور خارش کو زائل کرنے کے علاوہ منا سب ادویہ میں ملا کر فالج ،لقوہ ،وجع المفاصل وغیرہ میں مالش کرتے ہیں۔آگ سے جلنے پر لگاتے ہیں۔بالوں کو بڑھانے کے لئے اس کی کھلی سے سر کو دھو کر تلوں کاتیل سر میں لگاتے ہیں۔تلوں کا تیل مقوی باہ ہے اور طلاء کے علاوہ مرہم بنانے میں کام آتا ہے۔

تل مقوی ہونے کی وجہ سے معاجین میں شامل کئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ شکر ،خشخاش اور  مغز بادام کے ہمراہ کھلانے سے بھی قوت بڑھتی ہے۔نظام ہضم کو درست رکھنے کے لئے تلوں کی خاص اہمیت ہے۔اس کے لگاتا ر اور مسلسل استعمال کرنے سے بھوک اچھی لگتی ہے۔پرانے قبض کو دور کرتا ہے۔اس کے علاوہ چڑ چڑا پن ،عصبی کمزوری ،کمی یاداشت اور دماغی خلل اور تھکاوٹ کی شکایات دور ہو جاتی ہیں۔عصبی کمزوری کو دورکرنے  اور مقوی ہونے کی وجہ سے اسے بچوں کو سوتے میں پیشاب کرنے کی شکایت میں ایک حصہ اجوائن ،دو حصہ کالے تل اور چار حصہ گڑ کے ساتھ کھلانے سے بہت آفاقہ ہوتا ہے۔ ورموں کو تحلیل کرنے کے لئے ان کا ضماد کیا جاتا ہے۔امراض سینہ مثلاً دمہ ،کھانسی اور حلق کی خشکی دور کرنے کے لئے شہد میں ملاکر بطور لعوق چٹاتے ہیں۔گٹھیا او رپیروں میں ٹھنڈک زیادہ محسوس  ہونے کی صورت میں کالے تل خاص طور پر مفید ہوتے ہیں۔موسم سرما میں  ان کا استعما ل گڑ کے ساتھ کرنے سے دل اور دماغ کو طاقت پہنچتی ہے۔جسم تندرست رہتا ہےا ور چہرے پر چمک آتی ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوگئے ہوں یاجھڑ تے ہوں ،انہیں تل کا خاص طور پر استعمال کرنا چاہئے ۔تلوں کے پودے کے پتوں اور جڑ کے جوشاندہ سے سر کو دھونا اور تل کے تیل کی مالش مفیدہے۔

مرطب اور ملین جلد ہونے کی وجہ سے بد ن کی خشکی اور خارش کو زائل  کرنے کے لئے بد ن پر اس کی مالش کرتے ہیں۔اعضاء کو گرمی پہنچانے اور دروں کو ساکن کرنے کے لئے مناسب ادویہ ملا کر فالج ،لقوہ ،وجع المفاصل وغیرہ میں بھی ملتے ہیں۔تا کہ دواؤں کے جذب کرانے میں امداد کرے ۔تلوں کے تیل کو گھی کے مانند غذاؤں میں بکثرت استعمال کیا جاتاہے۔

چینی ،گری  بادام ،کھوپر  اور تل کھانے سے بد ن موٹا ہوتا ہے اور مردانہ  طاقت بنتی  ہے۔بالوں کو بڑھانے کے لئے سر کو دھو کر تلوں کا تیل سر میں لگاتے ہیں۔ بدن کو موٹا کرتا ہے۔مردانہ کمزوری کو دور کرتا ہے۔اس کے پتے پلٹس کا کام  کرتے ہیں۔

تلوں کو شہد میں ملا کر بطور لعو ق چٹایا جاتا ہے جو امراض سینہ میں مفید ہے۔ریوڑی اور گز ک جو تلوں سے بنائے جاتے ہیں ان کے کھانے سے بچوں کی بستر پر پیشاب کرنے کی عادت دور ہوجاتی ہے۔

تلوں کو دھو کر برابر وزن گری بادام شیریں اور خشخاش کے ساتھ کوٹ  کر سب کے برابر چینی سفید ملاکر10گرام سے 20 گرام دودھ نیم گرم سے استعمال کریں۔21دن کے استعمال  سے مردانہ کمزوری دور ہوجائے گی۔

تل کے لڈو:- Till Kay Laddoo

سردیوں کے موسم میں انسانی جسم باہر سے ٹھنڈا اور اندر سے گرم ہوجاتا ہے ۔دراصل موسم سرما کا مقابلہ کرنے کے لئے بدن سے خارج ہونے والے تھوک ،پیشاب اور سانس سے گرم بخارات اٹھتے ہیں۔یہ بخارات اس لئے خارج ہوتے ہیں کہ ہمارے جسم کے لئے بجلی اور حرارت پیدا کرنے والے جلد کے مسامات کافی حد تک بند کردئیے جاتے ہیں۔

ہمارے پیٹ کے اندر جگہ جگہ کام کرنے والی مشینری کا جال بچھا ہو ا ہے۔یہ مشینری چھوٹی بڑی آگ کی بھٹیوں کی شکل میں کافی مقدار میں خون اور چربی بنابنا کر جسم کو مضبوط اور گرم بنانے کا کام جاری رکھتی ہے۔جس طرح انسانی جسم کے اندر ونی کارخانے کے برابر چلتے رہنے سے بدن ک ٹوٹ پھوٹ اورمرمت کا سلسلہ قدرتی طور پر چلتا رہتا ہے اسی طرح ہر موسم  میں کچھ اعضاء کو موسم کے اعتبار سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔مثال کے طور  موسم سرما میں درجہ حرارت گر جانے کے سبب ہمارے گردوں  اور مثانے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں پسینہ کم اور پیشاب زیادہ آنے لگتا ہے۔اس لئے سردی میں بچے بوڑھے  اور جوان اکثر پریشان رہنے لگتے ہیں ۔کسی کو سردیوں میں اعصابی درد  تنگ کرنے لگتے ہیں ۔کسی کے ہاتھ پیر کانپنے لگتے ہیں۔کچھ کا بدن سن ہونے لگتا ہے۔کوئی جلد جلد پیشاب کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔اکثر کچھ افراد رات کو بار بار پیشاب آنے کی وجہ سے نیند کو تر س جاتے ہیں۔عموماً چھوٹے بچے رات کو بستر میں بار بار پیشاب کر کے والدین کو مشکل میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ دراصل یہ سب گردوں اور مثانے کی کمزوری کے سبب ہوتا ہے۔اگر مثانہ اور گردے مضبوط ہوں یا  ان کے گر د چربی  کی تہہ جمی ہو اعصاب کو طاقتور بنانے ،قبض  دور کرکے معدہ اور آنتوں کو ہلکا پھلکا رکھنے یا ہلکی بھاری غذا ہضم کرنے کے قابل بنانے کے لئے اسی موسم میں مناسب غذا کا دھیان رکھا جائے  تو موسم سرما کی کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔

گردوں ،مثانہ اور معدے کی مضبوطی کو قائم رکھنے کے لئےسردیوں  میں تل کے خوش ذائقہ ،غذائی لڈو بھی بنائے جاتے ہیں۔خاص طور پر یہ لڈو  کمزور مثانے والوں کے لئے بہترین دوا ہیں ۔یہ لڈو بنا نے کی ترکیب بھی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ناریل 250گرام ،سفید  دھلے ہوئے تل اور بیج نکالے گئے منقیٰ ہر دو250-250گرام ۔ان تینوں کو کوٹ کر اس کے 24 عدد لڈو بنالئے جائیں۔عمر اور طاقت کے اعتبار سےا یک لڈو سے تین لڈو تک بیک وقت ناشتے میں کھائے جا سکتے ہیں۔بار بار پیشاب آنے والے مریض  کو صبح  اور رات کو یہ لڈو کھلا کر دودھ پلائیں۔بچوں کو صبح اور رات کو ایک لڈو سے زیادہ نہ دیں۔ یہ لڈو مثانہ کی کمزوری دور کرنے کے ساتھ بدن میں ہیٹ کلوریز لحمی اجزاء،نشاستہ دار اجزاءاور حیاتین بھی پیدا کرتے ہیں۔جو لوگ موسم سرما میں سردی زیادہ محسوس کرتے  ہیں یا بدن میں درد کی شکایت کا شکار رہتے ہیں ان کو تل کے لڈو بے حد فائدہ پہنچاتے ہیں۔خاص طور سے یہ لڈو بدن میں طاقت پیدا کرکے اعصاب کو مضبوط کرتے ہیں۔

مشہور مرکب:-

معجون مقوی علوی خان،معجون ثعلب،لبوب کبیر وغیرہ۔

Wednesday, October 25, 2023

Dodonaea viscosa, Soapwood, switch sorrel, hopbush, wedge leaf hopbush - سنتھا کےطبی فائدے


#سنتھا #طبی #فوائد #سنتھا استعمال اور طب#ی فوائد #ہوپ #بش کے #طبی #فائدے#



Deodonaea viscosa medicinal benefits and uses. https://youtube.com/shorts/BvO5iNF9Vf4?feature=share https://uses.plantnet-project.org/en/Dodonaea_viscosa_(PROTA) https://www.google.com/amp/s/housing.com/news/dodonaea-viscosa/amp/ #healthchannelcategory #healthtipschannelcategory #healthtipsgrow  #dodonaeaviscosa #hopbush #Virli #soapwood #switchsorrel #wedgeleafhopbush #bighopbush

Hathisundi, Heliotropium indicum, Indian Heliotrope, Turnsole, Hatisur - ہاتھی سونڈی کےفائدے






ہاتھی سونڈی فوائد و طبی استعمال 
ہاتھی سونڈی  کی پھلی ہاتھی کی سونڈکی طرح ہوتی ہے،اس لئے اس کا نام ہاتھی سونڈی مشہور ہے۔تمام ہندوستان و پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔اس کی جڑیں ریشہ دار ہوتی ہے۔ڈنٹھل موٹے،پتے شیشم کے پتوں سے بڑے۔ہر شاخ کے سرے پر ہاتھی دانت کی طرح سفید سفید چھوٹے چھوٹے پھولوں سے بھری ہوئی ایک اُنگل تک ٹیڑھی پھلی لگی ہوئی ہوتی ہے جس میں چند روز بعد پھول گر کر دانہ جوار کے برابر کسی قدر چھوٹا بیج آتا ہے۔ریتلے کھیتوں میں برسات میں خشک مقامات پر ہوتی ہے۔
مزاج :- گرم خشک بد رجہ دوم  ہے۔
مقدار خوراک:-3 ماشہ ہے ، زیادہ مقدار میں قے آور  ہے۔
فوائد:اس بوٹی کا رس زبر دست انٹی سیپٹک ہے۔ دیہاتی لوگ اس کا رس مویشیوں کے زخموں پر جن میں کیڑے پڑ گئے ہوں ،لگاتے ہیں ۔یہ کرموں کو ہلاک کر کے زخم کو بھر کر درست کر دیتی ہے۔
داد:اس کے ایک پاؤ پتے کوٹ پیس کر ٹکیہ بنا کر آدھ سیر تلی کے تیل میں جلا لیں ۔جب ٹکیہ جل کر سیاہ ہو جائے تو آگ سے اتار کر چھان لیں۔یہ تیل داد،پھنسیوں اور خارش پر لگانے سے آرام آجاتا ہے۔
بچھو کاٹنا:اس کے پتوں کا رس ایک تولہ،کیسٹر آئل ایک تولہ ملا کر بچھو کے ڈنک پر لگائیں۔ آرام آ جائے گا۔
زخم حیوانات:مویشوں کے زخموں پر اس کا رس نچوڑنے سے زخم بھر جاتے ہیں اور کیڑے مر جاتے ہیں۔
مہاسے و چھائیاں:چہرے پر ہاتھی سونڈی کا رس ملنا مہاسوں اور چھائیوں کے لئے مفید ہے۔

ہاتھی سونڈی میں فولاد اور چاندی کا کشتہ  بہت اچھا ہے۔
کشتہ فولاد:-
شدھ برادہ فولاد پانچ تولہ ، ہاتھی سونڈی کے رس بیس تولہ میں متواتر ایک پہر کھرل کرکے کوزہ گلی میں گل حکمت کرکے دس سیر اپلوں کی آگ دیں۔اس طرح پانچ بار آگ دینے سے عمدہ کشتہ تیار ہو گا۔
مقدار خوراک:نصف  سے ایک رتی اڑھائی تولہ مکھن میں دیں،تقویت بدن اور کمی خون کے لئے مفید ہے۔
کشتہ چاندی:-
ہاتھی سونڈی بوٹی بیس تولہ کے رس میں ایک تولہ چاندی کے باریک پتروں کو اکیس بار بجھائیں۔بعدازاں اس بوٹی کے نغدہ میں پترے مذکور   رکھ  کر تین بار گل حکمت کر یں۔خشک ہونے پر پانچ سیر اپلوں کی آگ دیں۔ نہایت اعلیٰ درجہ کا سفید رنگ کا عمدہ کشتہ تیار ہو گا۔
مقدارخوراک ایک چاول ہمراہ مکھن ،کمزوری و جریان کے لئے مفید ہے۔

جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا سے ہاتھی سونڈی کے حوالے سے اقتباس 
حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
 (Hellistrope) ہاتھی سونڈی ’’جوان بوٹی
دیگرنام:ٖعربی میں خرطومی ‘فارسی میں نیل خرطومی‘ بنگلہ میں ہتنی سور‘ ہندی میں ہتسی شنڈی اور انگریزی میں ہیلس ٹروپ کہتے ہیں ۔
ماہیت: اس بوٹی کا قدا یک دو بالشت بھر ہوتاہے۔جڑ ریشہ پتے چھوٹے بیضادی موٹے موٹے شیشم یا چولائی کے پتے کے مشابہ پھلی ہاتھی کے سونڈ سے مشابے ہونے کی وجہ سے اس کو ہاتھی سونڈی کہتے ہیں ۔تمام پودے اور پتوں پر سفید رواں ہوتاہے۔ماہ فروری سے لےکر جون تک یہ پودا سرسبز رہتاہے۔اس کو پھول سفید رنگ کے لگتے ہیں ۔
مزاج: گرم خشک بدرجہ  دوم۔
افعال واستعمال:اس کے پتے جلاکر خارش اور ثبور پر مالش کرتے ہیں پتوں کے جوشاندے سے مویشیوں کے زخم کے کرم مرجاتے ہیں اس کے پتوں کی ٹھنڈائی سیاہ مرچ کے ہمراہ متواتر کئی روز پلانا سگ گزیدہ کو مفید ہے اس میں چاندی اور فولاد کا کشتہ بہت عمدہ بنتاہے۔
مقدارخوراک: 6 گرام (6ماشے)



 #hathisundi #hathisondi #heliotrophe #heliotropiumindicum Hathi Sundi, Indian Heliotrope, Indian Turnsole, Hatisur. Scientific Name: Heliotropium indicum #hathisondi #hathisundi #hathisur #heliotrope #indianturnsole #indianheliotrope #heliotropium #heliotropiumindicum

Berg Bansa Kay Faiday, Malabar Nut K Fawaid, Vasaka, Adhatoda vasica,Justicia adhatoda.

 Adhatoda vasica. Justicia adhatoda

دیگر نام: برگ بانسہ برگ اڑوسہ وساکا حشیشتہ السعال

Watch also previous video on Adhatoda vasica: Adhatoda vasica || Justicia adhatoda Previous Video. Malabar Nut, Berg e Bansa, Adhatoda, Vasaka Full Details.
Adhatoda vasica / Justicia adhatoda commonly known in English as Malabar nut, adulsa, adhatoda, vasa, vasaka, is native to Asia. The plant's native range is Afghanistan, Pakistan, Imdia, Laos, Myanmar and Vietnam. It has been introduced elsewhere. 
Adhatoda vasica (family Acanthaceae, AV) is a shrub, used by Asian and European medical practitioners. This plant has been used in the Indian traditional system of medicine (Manjunath 1948). Numerous in vitro, in vivo, and clinical studies have acknowledged AV(Adhatoda vasica) as an important natural agent for many medical illnesses. AV has an antiinflammatory action on the respiratory tract and is effective in respiratory tract infection. The alkaloids vasicinone and vasicine have potent bronchodilator and antiallergic activity. Owing to these activities, AV is effective in acute asthma conditions. AV has been proven for its antitussive activity as effective as codeine in irritant aerosols and citric acid-induced cough models. The leaves, roots, flowers, and bark of this plant have been used in the treatments of cough, colds, asthma, to liquefy sputum, as a bronchodilator, bronchial catarrh, bronchitis, and tuberculosis. A number of parts of the plant are commonly used in the forms of decoctions or powders. The juice from the leaves is also frequently used (Claeson et al., 2000). Vasaka syrup and vasaka liquid extract are mentioned in Pharmacopoeia of India (The Indian Pharmacopoeia), (1955). An essential oil extracted from the leaves of AV showed a relaxant effect on the airway smooth muscle in the isolated guinea pig tracheal chain (D’Cruz et al., 1979). A methanolic extract from the whole plant showed antiallergic and antiasthmatic properties in the guinea pig (Muller et al., 1993). Many herbal preparations containing AV are commercially used, such as Kada in India, Salus Tuss in Germany, and Kan Jang and Spirote in Sweden (Claeson et al., 2000). Vasicine, an alkaloid, is one of the major components of the plant and is responsible for most of its activities, including its antioxidant, antiinflammatory, and bronchodilatory qualities. Bromhexine, a derivative of vasicine, has been shown to possess mucus-liquefying/expectorant activity. A clinical trial was conducted with bromhexine in 30 patients suffering from different respiratory symptoms. A significant change in the viscosity and acid mucopolysaccharide structure was found in the bromhexine-treated group as compared to the placebo group, and this was seen in both infected and noninfected patients. Ambroxol, a widely used secretolytic agent developed from vasicine, was shown to inhibit IgE-dependent mediator secretion from human MCs and basophils—the principal effectors of allergic inflammation. As compared to vasicine, ambroxol showed a greater effect in lowering basophil IL-4 and IL-13 secretions. It was also reported to reduce IgE-dependent p38 mitogen-activated protein kinase (MAPK) phosphorylation in basophils (Rachana et al., 2011).
------------------------------------
To find immediately applicable drug for the treatment of COVID-19 positive patients, a plausible life cycle of this virus is proposed from the analysis of few case reports. On the basis of this proposal and symptomatic similarities few common drug-molecules are tested as protease inhibitor and replicase inhibitor of COVID-19 virus using COVID-19 Docking Server. It is observed that anisotine and vasicoline of Justicia adhatoda and Pemirolast are very good inhibitors. As all these three compounds are market available drugs, immediate clinical trial is plausible which may lead to the golden success against the present pandemic. We prescribed different drugs for different purpose and stages of viral infection.
Reference.
Bag A, Bag A. Treatment of COVID-19 patients: Justicia adhatoda leaves extract is a strong remedy for COVID-19 – Case report analysis and docking based study. ChemRxiv. Cambridge: Cambridge Open Engage; 2020; This content is a preprint and has not been peer-reviewed.

Contact for further details:
#cough #malabarnut #bansa #bhankar #vasaka #adhatodavasica #Justiciaadhatoda #plants #herbalmedicine

Wednesday, October 4, 2023

اینٹی وینم کیا ہوتا ہے یہ بنتا کیسے ہے اور کیا ہر قسم کے زہریلے سانپ کے کاٹنے پر ایک ہی اینٹی وینم لگاتے ہیں یا الگ الگ اینٹی وینم لگتا ہے؟

 سوال :اینٹی وینم کیا ہوتا ہے یہ بنتا کیسے ہے اور کیا ہر قسم کے زہریلے سانپ کے کاٹنے پر ایک ہی اینٹی وینم لگاتے ہیں یا الگ الگ اینٹی وینم لگتا ہے؟ 

:جواب 

آج کے آرٹیکل میں سانپوں سے زہر نکال کر اینٹی وینم بنانے تک کے عمل پر روشنی ڈالوں گا کہ اینٹی وینم بنایا کیسے جاتا ہے اور اسکو مریض کو دیا کیسے جاتا ہے.

اینٹی وینم بنانے کیلئے سب سے پہلا عمل سانپوں سے زہر کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے جسکو وینم ایکسٹریکشن کہا جاتا ہے جو کہ ایک ماہر سانپو‌ں کو سنبھالنے والا جسکو snake milker کہا جاتا ہے کرتا ہے. 

سنیک ملکرز سانپوں سے حاصل کردہ زہر کو ایک خاص پروسیسنگ کے بعد خشک کرکے مختلف لیبارٹریوں کو مہیا کرتا ہے جس سے لیبارٹریز و میڈیکل انسٹیٹیوٹس اینٹی وینم و مختلف قسم کی میڈیسن، میک اپ پروڈکٹس بناتے ہیں ۔

چونکہ ہم اینٹی وینم بنانے کی بات کررہے ہیں تو یہاں اسی کے متعلق ہی بات کریں گے.

مختلف لیبارٹریز جو اینٹی وینم بناتیں ہیں وہ سانپوں سے خود بھی زہر حاصل کرتیں ہیں جبکہ کچھ لیبارٹریز سنیک ملکرز سے وینم خریدتیں ہیں. اسکا رحجان مغربی ممالک میں زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں زیادہ تر لیبارٹریز صرف سانپ خریدتیں ہیں اور وینم خود ایکسٹریکٹ کرتیں ہیں.

  اگر کسی کو سانپ کاٹ جائے تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا جائے جہاں اسے اینٹی وینم ویکسین لگائی جائے تاکہ اسکی جان بچائی جا سکے. اینٹی وینم بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک polyvalent اور دوسرا Monovalent جب لیبارٹریز مختلف سانپو‌ں سے زہر حاصل کرلیتیں ہیں تو اگر تو انہیں پولی ویلنٹ اینٹی وینم بنانی ہے تو وہ مختلف سانپوں (کوبرا، سنگچور ،سا سکیلڈ وائیپر رسل وائیپر) سے اکٹھا کردہ زہر کوایک خاص مقدار میں تھوڑا تھوڑا مکس کرتے ہیں جو بھی انہوں نے فارمولا نکالا ہوتا ہے اور پھر ان تمام زہروں کے مکسچر کو انجیکشن کی صورت میں ایک مخصوص مقدار میں گھوڑے کے جسم میں انجیکٹ کردیا جاتا ہے.

Cobra
Common Krait
Russell's viper
Cobra
Russell's viper
Saw Scaled Viper

گھوڑے کا امیون سسٹم کچھ دیر میں باہر سے انجیکٹ کردہ وینم کے خلاف اینٹی باڈیز بنانی شروع کردیتا ہے ڈاکٹر حضرات کچھ ہفتوں بعد گھوڑے کے جسم سے خون نکالتے ہیں جیسے اکثر انسانوں کے جسم سے بھی نکالتے ہیں اسی طرح گھوڑوں کے جسم سے بھی خون کو نکال لیا جاتا ہے اب اس خون کو انتہائی تیز رفتاری سے گھومنے والی Centrifuged Machines جوکہ خون سے پلیٹلیٹس یا پلازما علیحدہ کرنے کیلئے استعمال ہوتیں ہیں کو استعمال کرتے ہوئے گھوڑے کے جسم سے حاصل کردہ خون سے پہلے پلازما اور پھر اس پلازما سے ان اینٹی باڈیرز کو پیورفائی کرکے الگ کرلیا جاتا ہے جو گھوڑے کہ امیون سسٹم نے اس زہر کے خلاف بنائی ہوتیں ہیں.

 پولیویلنٹ اینٹی وینم کسی بھی قسم کے زہریلے سانپ کاٹے پر مریض کو لگایا جاتا ہے نوٹ : مختلف ممالک اپنے اپنے ریجنز میں پائے جانے والے زہریلے سانپوں کی قسموں سے زہر حاصل کرکے پولی ویلنٹ بناتے ہیں.

پولی ویلنٹ اینٹی وینم بنانے کا مقصد کیا ہے؟

اصل میں ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات لوگوں یا گھریلو پالتو جانوروں کو سانپ کاٹ جاتا ہے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ سانپ انسان کو کاٹ جاتا ہے اور جلدی میں انسان سانپ کو دیکھ ہی نہیں پاتا، جب وینمس بائٹ کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتیں اور جب انسان کو لے کر ہسپتال جایا جاتا ہے اور زہر پھیلتا ہے تو ڈاکٹرز کو بھی ٹیسٹ رپورٹس چیک کرنی پڑتیں ہیں کہ آیا کسی سانپ کے کاٹنے کی علامات ہو سکتیں ہیں.

زیادہ تر ڈاکٹرز bt, ct ٹیسٹ کروا لیتے ہیں جس میں بلیڈنگ ٹائم اور بلڈ کا کلوٹنگ ٹائم دیکھا جاتا ہے اگر خون میں پلیٹلیٹس انتہائی کم ہو رہے ہوں یعنی بلڈ پروفائل ہائیلی ڈرینج شو ہو رہا ہو تو ہیموٹوکسک وینمس بائٹ ہے اور اگر بلڈ میں کوایگولیشن ہورہی ہو یعنی بلڈ گاڑھا ہو رہا ہو اور بلڈ میں موجود ہیموگلوبن (آکسیجن) انتہائی کم رہ جائے اور بلڈ کلوٹنگ پروفائل شو ہو رہی ہو تو نیوروٹاکسک وینم بائٹ ہوتی ہے

 اگر سانپ کا کنفرم نہ ہو بھی ہو لیکن سمپٹمز شو ہورہے ہوں دونوں بائٹس میں سے کوئی اور مریض کو بھی کنفرم ہوکاٹا سانپ ہی ہے لیکن نسل کنفرم نہیں کونسا تھا تو ایسی صورت میں بھی وہ ڈاکٹرز جو اکثر وینمس سنیکس بائٹ کا ٹریٹمنٹ کرتے ہیں فوراً پولی ویلنٹ اینٹی وینم سیلائین واٹر میں مکس کرکے وکٹم کو iv انٹراویسکولر(خون کی رگوں ) لگا دیتے ہیں.

کیونکہ بعض اوقات زہر پھیلنے کی علامات شو ہورہی ہوتیں ہیں لیکن سانپ کی نسل کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے اس لیے چونکہ پولی ویلنٹ ریجنز میں پائے جانے والے زہریلے سانپوں کے زہر کے مکسچر سے بنا ہوتا ہے تو اسکو متاثرہ افراد جن کی حالت سیریس ہو کو فوراً دیا جا سکتا ہے یہ جانے بنا کہ کونسا زہریلا سانپ ہو سکتا ہے .لیکن یہ کنفرم کرنا لازم ہوتا ہے کہ کاٹا سانپ نے ہی تھا. اسکے علاوہ گھریلو پالتو جانور تو بے زبان ہوتے ہیں وہ قطعاً اپنے مالکان کو جاکر نہیں بتا سکتے کہ انکو کونسا سانپ کاٹ گیا ہے، اب جب انکو زہر پھیلنے کی علامات ظاہر ہورہی ہوں تو انکو بھی پولی ویلنٹ ہی لگایا جاتا ہے.

جبکہ مونوویلنٹ اینٹی وینم سانپوں کی نسل کے مطابق ہی دیا جاتا ہے تب جب مریض یا ڈاکٹرز کو کنفرم ہو کہ کونسا سانپ کاٹا ہے ، یعنی اگر کوبرا کاٹا ہے تو جو اینٹی وینم کوبرا کے زہر سے حاصل کیا گیا ہے وہ ہی مریض کو لگے گا، اگر سا سکیلڈ وائیپر کاٹا ہے تو سا سکیلڈ وائیپر کے زہر سے بنایا گیا اینٹی وینم، سنگچور کاٹا ہے تو اسکے زہر سے بنایا گیا اینٹی وینم، رسل وائپر کاٹا ہے تو رسل وائیپر سے بنایا گیا اینٹی وینم ہی لگتا ہے، اسی طرح اگر کوئی یہ دیکھ لے کے پالتو جانور کو کس سانپ نے کاٹا ہے اور سانپ کی نسل کا کنفرم ہو تو تب بھی مونوویلنٹ اینٹی وینم ہی لگے گا. مونوویلنٹ اینٹی وینم پولی ویلنٹ اینٹی وینم سے زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ وہ اسی ایک سانپ کے زہر سے حاصل کردہ ہوتا ہے جو کہ کسی کو کاٹا گیا ہوتا ہے جبکہ پولی ویلنٹ میں مختلف سانپوں کی قسموں کے زہر کو تھوڑا تھوڑا مکس کرکے بنایا جاتا ہے.

دونوں اینٹی وینمز کو بنانے کا طریقہ ایک ہی ہوتا ہے بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مونوویلنٹ اینٹی وینم ایک ہی سانپ کے زہر سے بنایا جاتا ہے جبکہ پولی ویلنٹ مختلف سانپوں کے زہر سے. امید ہے سبکو دو طرح کے اینٹی وینم ٹائپ کی اور انکو استعمال کرنے کے پروسیجر کی سمجھ آگئی ہوگیاینٹی وینم وکٹم کو ہمیشہ IV انٹراویسکولیری، یعنی وینز میں Crystalloid solutions جیسے نارمل سیلائن واٹر یا D5W میں مکس کرکے لگایا جاتا ہے. اینٹی وینم بلڈ سٹریم میں شامل ہوکر پھیلتے ہوئے زہر کیخلاف جدوجہد کرتا ہے اور زہر کے اثر کو ختم کرتا ہے. 

کیا مختلف ممالک میں پائے جانے والے اینٹی وینم کو دنیا کے دوسرے ممالک میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اس بات کو میں ایک مثال دے کر آپ لوگوں کو سمجھاوں گا پہلے تو یہ جان لیجیے کے دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جانے والے ایک ہی خاندان، ایک ہی جینس سے تعلق رکھنے والی نسلوں کے زہر کے اینزایمز میں فرق ہوتا ہے.

جیسے ایشین و ساوتھ ایشین ممالک میں پائے جانے والے کوبراز اور افریقن ممالک میں پائے جانے والے کوبراز کے زہر میں پائے جانے والے کئی پیپٹائڈز یا پولی پیپٹائڈز میں واضح فرق ہوتا ہے.

اگرچہ تمام اصل کوبراز ایلاپاڈی خاندان کی جینس ناجا سے تعلق رکھنے والے زہریلے سانپ ہیں اور انکا زہر بھی نیوروٹوکسک ہے لیکن ریجنز کے حساب سے کسی کی لینتھ کسی کی موٹائی، کسی کا زہر، زیادہ تیز کسی کا کم تیز ہوتا ہے لیکن اگر ایک ہی سپیشز ایک سے زیادہ ملکوں میں پائی جاتی ہے تو اسکا اینٹی وینم دوسرے ممالک میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے.

نوٹ: یہاں میں ایک ہی جینس سے تعلق رکھنے والی مختلف سپیشیز کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ سانپ کی ایک قسم کا ذکر کر رہا ہوں جو دنیا کے ہمسایہ ممالک میں پائی جا سکتی ہے.آپکو ایک مثال دے کر سمجھاتا ہوں. بلیک مامبا جو کہ کئی افریقن ممالک میں پایا جاتا ہے، جن میں ساوتھ افریقہ، کانگو، ایتھوپیا، ایریٹریا، سوڈان، صومالیہ، یوگانڈا،کینیا، زیمبیا، ملاوی، موزمبیق، نمبیبیا ،زمباوے،انگولا وغیرہ شامل ہیں.اب یہ ممالک ایک دوسرے کے ممالک میں بنی بلیک مامبا کی اینٹی وینم استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ بلیک مامبا ایک ہی قسم ہے ان تمام ممالک میں اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کسی کو پاکستان میں کوبرا، سنگچور ، سا سکیلڈ وائیپر ،رسل وائیپر کاٹے اور ہم اسے ان ممالک سے لائی گئی بلیک مامبا کے لیے بنی ہوئی اینٹی وینم لگا دیں، یا ان ممالک میں پائے جانے والے کوبراز یا وائپرز کیلئے بنائی گئی اینٹی وینم ایسے مریض کو لگا دیں جسے پاکستان میں کوبرا یا رسل وائیپر نے کاٹا تھا چونکہ افریقہ میں کوبراز کی الگ الگ نسلیں ہیں جبکہ پاکستان میں کوبراز کی الگ الگ نسلیں ہیں اسلیے افریقہ کے کوبراز کا پاکستانی کوبراز کاٹے اینٹی وینم نہیں لگ سکتا اور پاکستانی اینٹی وینم افریقہ میں اُدھر کے کوبراز کاٹے پر نہیں لگ سکتا ہے.اب چونکہ انڈیا و پاکستان ہمسایہ ممالک ہیں اور ان میں سانپوں کی بگ فور کی اقسام بھی سیم ہی ہیں (انڈین سپیکٹیکلڈ کوبرا ،کامن کریٹ ، سا سکیلڈ وائیپر ،رسل وائیپر) اسلیے ہم انڈیا کی اور انڈیا پاکستان کی پولی ویلنٹ یا مونوویلنٹ اینٹی وینم استعمال کر سکتے ہیں اسی طرح وہ ممالک جہاں ایک ہی قسم کے زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ملک میں بنی ہوئی اینٹی وینم استعمال کر سکتے ہیں.جہاں سانپوں کی سپییشیز بدل جائیں گی چاہے وہ ایک ہی سانپوں کی فیملی سے تعلق کیوں نہ رکھتیں ہوں وہاں کا بنا اینٹی وینم دوسرے ملک میں استعمال نہیں کیا جا سکتا. مثلاً جیسے کوئی امریکہ سے آرہا ہو اور وہ ریٹل سنیک کا اینٹی وینم پاکستان لے آئے کے میرے گاؤں میں کافی لوگوں کو سا سکیلڈ یا رسل وائیپر کاٹتا ہے تو میں ادھر کسی متاثرہ فرد کو لگا یا دے دوں گا، ایسا نہیں ہوسکتا ہے ریٹل سنیک اور سا سکیلڈ وائیپر یا رسل وائیپر کے زہر میں بہت فرق ہوتا ہے اسلیے یہ اینٹی وینم استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے .

کیا غیر زہریلا سانپ کاٹتا ہے تو اینٹی وینم لگوائی جا سکتی ہے اسکا کوئی نقصان تو نہیں ہوگا؟

جیسا کہ آپکو بتایا ہےکہ اینٹی وینم گھوڑے کے پلازما سے پیورفائی کرکے علیحدہ کردہ اینٹی باڈیز ہی ہوتیں ہیں. انسان کا امیون سسٹم جو اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے وہ گھوڑے کی اینٹی باڈیز سے کمپیٹیبل( مسابقت) نہیں رکھتیں ہیں، ہمارا امیون سسٹم باہری طور پر انجیکٹ کردہ ان اینٹی باڈیز کو نہیں پہنچاتا ، چونکہ گھوڑے سے حاصل کردہ اینٹی باڈیز ہوتی بھی زیادہ طاقتور ہیں تو جب بغیر کسی وجہ کہ یعنی جب زہریلا سانپ نہ کاٹا گیا ہو اور ایسے ہی اینٹی وینم لگا دیا جائے تو یہ انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے، چونکہ وکٹم کے جسم میں زہر پھیلنے کے کوئی اثرات نہیں ہوتے اس لیے اسکا امیون سسٹم بلکل صیح کام کر رہا ہوتا ہے جب ڈاکٹرز اینٹی وینم دے دیتے ہیں تو ایسے میں ہمارا امیون سسٹم ان باہری اینٹی باڈیز کیخلاف ہی اپنی اینٹی باڈیز پروڈیوس کرنا شروع کردیتا ہے.اب جب باہری انجیکٹ کردہ اور ہمارا امیون سسٹم جو اینٹی باڈیز پروڈیوس کررہا ہوتا ہے آپس میں گھتم گھتہ ہو جاتیں ہیں اس طرح شدید الرجک ری ایکشن ہوسکتا ہے جسم پر بڑے بڑے سرخ دھبوں کا نمودار ہونا، اسکے علاوہ سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا، پھیپھڑوں پر سوجن یا لقوہ مار جانا شامل ہے. غیر زہریلے سانپ کاٹے سے بندہ نے کیا مرنا ہے وہ اینٹی وینم کے الرجک ری ایکشن کیوجہ سے مر جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ سانپ بہت زہریلا تھا جان لے گیا بیچارے کی، اسلیے کہتے ہیں اینٹی وینم دو دھاری تلوار جیسا ہوتا ہے یہ فائدہ بھی دے سکتا ہے اور الٹا نقصان بھی. اسلیے غیر زہریلے سانپ کے کاٹنے پر اینٹی وینم نہیں لگوانا چاہیے بس معمولی مرہم پٹی اور اینٹی بیکٹریل گولیاں یا انجیکشن ہی کافی ہوتا ہے. 

کیا گھوڑوں کے علاوہ بھی دوسرے جانداروں کو اینٹی وینم پروڈیوس کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور کیا گھوڑے پر سانپ کے زہر کا اثر نہیں ہوتا ہے، کیا گھوڑا سانپ کے زہر سے مرتا نہیں ہے؟

گھوڑوں کے علاوہ بھی کئی جانداروں کو اینٹی سنیک وینم بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جن میں گدھا، بکری، بھیڑ، اونٹ، لاما، بندر، بلی، کتے، خرگوش وغیرہ شامل ہیں آپکو بتایا ہے کہ ایک مخصوص کوانٹٹی میں کیمیسٹ فارمولا بناتے ہیں اور پھر ڈاکٹرز اسی فارمولا کے تحت گھوڑوں کو زہر سیلائن وَاٹر میں مکس کرکے لگاتے ہیں ، اگر کیمیسٹس کی طرف سے فارمولا صیح نہ نکالا گیا ہو (یعنی کتنی کتنی مقدار میں زہر مکس کرنا ہے یا ویسے ایک ہی سانپ کا زہر کتنا گھوڑے کو دینا ہے) تو اس زہر کی مقدار غلطی سے زیادہ لگ جائے تو گھوڑا مر بھی جاتا ہے، عموماً زہر انجیکٹ کرنے کے بعد آٹھ سے دس ہفتوں بعد گھوڑے کے جسم سے 3 سے 6 لیٹر بلڈ نکالا جاتا اور پھر اس سے اینٹی باڈیز کو الگ کیا جاتا ہے، اس سارے عرصے کے دوران ایک ماہر ویٹنری ڈاکٹر تمام گھوڑوں کی صحت کی مکمل نگرانی کرتا ہے، اس دوران گھوڑوں کو انتہائی اعلیٰ خوراک جس میں تازہ پھل فروٹ و مربہ جات شامل ہیں دی جاتی ہے. کئی ممالک میں سال میں دو دفعہ اور کئی ممالک میں تین سے چار مرتبہ بھی گھوڑوں کو وینم انجیکٹ کرکے اینٹی باڈیز پروڈیوس کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے 

کیا اینٹی سنیک وینم کو گھر میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے جو ضرورت پڑنے ہر استعمال کی جا سکے کیا اسکی کوئی ایکسپائری ہوتی ہے ؟

جی بلکل اینٹی سنیک وینم کو گھر میں عام فرج میں بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے لیکن اصل مسئلہ تو اسکو لگانے کا ہوتا ہے ایک عام بندہ کیسے اپنی رگوں میں لگا لے گا جانا تو پھر ڈاکٹر کےپاس ہی پڑے گا، کیونکہ یہ اینٹی وینم نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے اسلیے ڈاکٹرز حضرات اینٹی وینم کو دیتے وقت لازماً اینٹی الرجک انجیکشنز بھی ڈرپ میں شامل کرتے ہیں تاکہ یہ ری ایکٹ نہ کرجائے، اور جی ہاں اینٹی وینم کی بھی دوسری ادویات یا انجیکشنز کیطرح ہی ایکسپائری ہوتی ہے اک مخصوص مدت کے بعد یہ ناقابل استعمال ہو جاتا ہے.


Thursday, September 21, 2023

 آک، اک ، مدار  ،اک کا پودا ، اک کا درخت 

Apple of Sodom 

Calotropis procera (Aiton) Aiton fil.

Written By: Hakeem Muhammad Rizwan Arshad

Calotropis procera is a drug of herbal origin, which has been in use for medicinal purpose since time immemorial. Calotropis procera a small tree or shrub, is a species of flowering plant in the family Apocynaceae that is native to North Africa, Pakistan, tropical Africa, Western Asia, South Asia, Indochina and were introduced to South America and the islands of the Caribbean, where they have naturalized. The green fruits contain a toxic milky sap that is extremely bitter and turns into a gluey coating which is resistant to soap. Although comparatively toxic, the drug has effectively been employed for the treatment of various ailments like (arthritis, ascites, inflammatory conditions, leprosy and asthma etc. It belongs to the family of Asclepedaceae and genus Calotropis. There are four (4) species of this genus, but only Calotropis procera and Calotropis gigantea are well recognized for their medicinal properties.


Caltrropis procera, Flowers and Leaves

    


Caltropis Giganta, Flowers and Leaves

Plant Description:-

It is found growing wild throughout in comparatively drier and warmer areas, up to an altitude of 1050 m. It occurs in open habitats such as cultivated fields, roadsides, grazing lands and other disturbed or degraded sites. It is a shrub or small tree, generally up to 2.5-4 m (max. 6) high. Stem round, usually simple (rarely branched), pale green, thickly covered with hoary pubescence which readily rubs off. Leaves decussate, obovate, acuminate 10-20 cm long and 4-10 cm wide. Inflorescence a dense, multiflowered, umbellate cyme arising from the nodes and appearing axillary or terminal. Corolla slightly campanulate, with 5 sepals that are 4-5 mm long; segments ovate, acute, rather concave, dull purple bordered with white on the upper side, silvery on the underside. Fruits sub-globose, ellipsoid or ovoid, recurved follicle, 7.5-10.0 cm. Seed light-brown, broadly ovate, flattened, 3.2 cm with silky hairs. A white milky sap is exuded from any wound on the plant.

Scientific classification:-

Kingdom Plantae

Phylum Tracheophyta

Class Magnoliopsida

Order Gentianales

Family Apocynaceae

Genus Calotropis R.Br.

Species    Calotropis procera (Aiton) Aiton fil

Binomial name:-

Calotropis procera (Aiton) Aiton fil

Synonyms:-

Apocynum syriacum Garsault

Calotropis procera (Ait.) R.Br.

Apocynum syriacum S.G.Gmel.

Asclepias gigantea Jacq.

Asclepias gigantea Willd.

Asclepias heterophylla Decne.

Asclepias patula Decne.

Asclepias procera Aiton

Calotropis gigantea Maycock, 1830

Calotropis gigantea var. procera (Aiton) P.T.Li

Calotropis hamiltonii Wight

Calotropis heterophylla Wall. ex Wight

Calotropis inflexa Chiov.

Calotropis mudari Ham.

Calotropis persica Gand.

Calotropis busseana K.Schum.

Calotropis procera (Aiton) Dryand.

Calotropis procera subsp. hamiltonii (Wight) Ali

Calotropis syriaca (Gmel.) Woodson

Calotropis wallichii Wight

Calotropis syriaca Woodson

Madorius procerus (Aiton) Kuntze

Vernacular Names (مقامی یا علاقائی نام )

Calotropis procera (Aiton) Aiton fil (آک) popularly known as, Ushr, Aak, Ak, Madar, Aakh, Madaar, Ashar. Usher, Ochar, Osherin in Unani Tibb; It is known by its different vernacular names such as Usher, Ochar, Osher  in Arabic; Madar, Aak in Urdu; Ak, Ak, Shakrallighal, Shakarulushar in Punjabi;  Aak in Sindhi; Alarka, Arka, Bimbora, Mandarapratapa Ravi, Bhanu, Tapana, Alarka, Surya, Suuryaahvya, Vikirna, Vasuka, Tapana, Tuulaphala, Kshirparna, Arkaparna, Aasphota, Aak, Ak, Khark, Zaharnak, Surya Patra, Mandara in Sansikrat;   Aak, Madar, Akavana, Ag, Ak, Akada, Madar, Safeda in Hindi;  Usher in Persian; Spalwakka in Afghani; Akand, Akan in Assamese; Akanda, Akone in Bengali;  Aakado in Gujrati;  Acka in Kashmiri;   Velleruku in Tamil;   Jilledu, Mandaramu  in Telugu;Ekka, Ekkadagida  in Kannad; Arakka, Orko in  Uriya : ;Ak in Kumaon;  Acka in Kashmiri; Bukam in Malayalam; Mandara in Marathi; : Usher in Sudanese ; Ak, Calotropis floss, Madar, Mader, Swallow-Wart, Milk Weed(Ppurple-flowered), King’s Crown, Apple of Sodom, Calotrope, Rubber bush, Sodom apple, Dead Sea Apple in English.

Habit and Habitat:- It is found more or less throughout Pakistan, India, in warm and dry places. It is a native of China and Malaysia and distributed in the following countries: Afghanistan, Algeria, Burkina Faso, Cameroon, Chad, Cote d’Ivoire, Democratic Republic of Congo, Egypt, Eritrea, Ethiopia, Gambia, Ghana, Guinea-Bissau, India, Iran, Iraq, Israel, Kenya, Kuwait, Lebanon, Libyan, Arab Jamahiriya, Mali, Mauritania, Morocco, Mozambique, Myanmar, Nepal, Niger, Nigeria, Oman, Pakistan, Saudi Arabia, Senegal, sierra Leone, Somalia, Sudan, Syrian Arab Republic, Tanzania, Thailand, Uganda, United Arab emirates, Vietnam, Yemen, Republic of Zimbabwe, Exotic: Antigua and Barbuda, Argentina, Australia, Bahamas, Barbados, Bolivia, Brazil, Chile, Colombia, Cuba, Dominica, Dominican Republic, Ecuador, French Guiana, Grenada, Guadeloupe, Guatemala, Guyana, Haiti, Honduras, Jamaica, Martinique, Mexico, Montserrat, Netherlands Antilles, Nicaragua, Panama, Paraguay, Peru, Puerto Rico, StKitts and Nevis, St Lucia, St Vincent, and the Grenadines, Surinam, Trinidad and Tobago, Uruguay, Venezuela and Virgin Islands. 

Plant Description:-Large shrub or small tree up to 4-10 m tall, much-branched at base, stems erect, up to 20 cm in diameter; bark pale gray, longitudinally cracked; young shoots woolly hairy; latex in all parts.

Leaves:- A twig with oppositely arranged sub sessile leaves, decussate, blade broadly ovate to oblong-obovate, or elliptical, 9.5–20 cm × 6–12.5 cm, base cordate with semiamplexicaule lobes, cottony, pubescent when young and glabrous on maturity.

Apex:- Almost acute, short-hairy beneath. Inflorescence is an axillary, umbellate to almost corymbose cyme up to 12.5 cm in diameter, peduncle 6–12 cm long, stout, secondary branches up to 2 cm long.

Flowering:- Calotropis procera produces flowers nearly all year round.

Parts used:- Latex, flowers, leaves, Root bark,  root, Seeds, Leaves, Flowers, Flower buds, Latex of tree, Salt of the leaves, Bark of the root.

Phytoconstituents:- The plants contain the cardenolide, proceragenin, while the root bark contains benzoylinesolone and benzoylisolinelone, α-amyrin,β-amyrin , lupeol, β-sitosterol and flavanols like quercetin-3-rutinoside . .In the leaves, mudarine is the principal active constituent as well as a bitter yellow acid, resin and 3 toxic glycosides calotropin, uscharin , calotoxin and calotropagenin. Flower contains calotropenyl acetate, and multiflavenol and the latex contains uzarigenin, and terpenol ester. The latex contains a powerful bacteriolytic enzyme, a very toxic glycoside calactin (the concentration of which is increased following insect or grasshopper attack as a defense mechanism), calotropin D I, calotropin D II, calotropin-F I, calotropin F II and a non-toxic protealytic enzyme calotropin (2 %-3 %).

Tibb Unani(Action):- Mohallil-e-Warm, Munaffis-e-Balgham, Hazim, Jali, Qatil-e-Deedan-e-Ama. 

Therapeutic Use:- Zeequn Nafas, Waj-ul-Mafasil, Bawaseer, Zaheer, Jiryan, Deedan-e-Ama The plant is used against bronchial asthma (especially flowers with black pepper). 

Drug Temperament:-

The temperament of different parts of C. Procera ias as under:-

Latex :  Hot and Cold in fourth order.

Leaves : Hot and Dry in third order.

Flowers : Hot and Dry in third order.

Root bark : Hot and Dry in third order.

Some Medicinal Uses:- It is used in the diseases like Asthma, Ear ache, Stomach ache, Arthritis, Skin disease, Haemorrhoids, useful in anorexia, Root bark is useful in cough, cold and constipation.. It is a multipurpose plant, which can be utilized for medicine, fodder, and fuel purposes, timber and fiber production, phytoremediation, and synthesis of nanoparticles. It has been widely used in traditional medicinal systems across North Africa, Middle East Asia, and South-East Asia. At present, it is being extensively explored for its potential pharmacological applications.Latex is expectorant, anthelmintic, depilatory, infanticide, corrosive, vesicant, antispasmodic, alterative, nervine tonic, counter-irritant. Flowers are stomachic, tonic,  antiphlegmatic, resolvent, analgesic, Leaves are analgesic, resolvent, cough- reliever, antiasthamatic. Root and bark are emetic, diaphoretic, alterative, purgative febrifuge. diuretic, expectorant, cholagogue.The latex is used in leprosy, scabies, ringworm of the scalp, piles, eruptions on the body, asthma, enlargement of spleen and liver, dropsy, rheumatism, taenia eczema, cough, ascites, toothache, worms. And insect bites. The flowers are useful in asthma, catarrh, loss of appetite, cholera, cold, cough, skin diseases, worms and anasarca. Ihe leaves are used in headache, catarrh. Cough, asthma. and are applied to paralysed parts, painful joints, swellings and to heal wounds, The root and bark are used to cure dysentery, leprosy, secondary syphilis, against the intestinal worms, cough, ascites, anasarca and dyspepsia. The dried root bark is stated to be an excellent substitute for Ipecacuanha in the treatment of dysentery. All the parts are useful. The plant is said to be a good cure for sprains, headache, pains and eye troubles. It has expectorant, anthelmintic, alterative, proteolytic activities and regarded as a drastic purgative.

Leaves: used for treating chronic cases of dyspepsia, flatulence, constipation and mucus in stool. 

Seed oil: geriatric and tonic. 

Leaves, flowers and root-bark oil:

antimicrobial (maximum activity in leaves).

Ayurvedic Properties:- Rasa (taste) - Katu (pungent), Tikta (bitter), Guna (qualities) - Laghumn (lightness), Ruksha (dryness), Teekshna, Vipaka - Katu, Virya -Ushna.

Ayurvedic Applications:- Gulma, Svasa, Kustha, Krmiroga, Kandu.

The Ayurvedic Pharmacopoeia of India indicated the use of the root and leaf in asthma and dyspnoea; stem bark in diseases of the spleen.

Root bark contains benzoyllineolone and benzolisolineolone. Root, stem and leaves, also latex contain beta-amyrin. Flowers contain evanidin 3-rhamnoglucoside. The plant contains a cardenolide, proceragenin, an antibacterial principle.The latex is given for treating epilepsy, also in painful, joints and swellings.

The latex exhibited anti-inflammatory activity in carrageenan-and formalininduced rat paw oedema model. The herb can alter menstrual cycle andtemporarily inhibit ovulation. Cardiac glycosides may be additive when combined with Digoxin. (Sharon M. Herr.)

Dosage :-

Flowers 125 mg - 375 mg (Kabiruddin, 2000).

Latex 250 mg (Kabiruddin, 2000), 1-1.5 grams (Ghani, ynm), 3 grams (Ghulam, 2007). Milky juice—500 mg to 1 g (CCRAS.)

Leaves 250 to 750 mg powder; 250 mg - 1 gram (Anonymous, 1992; (Kabiruddin, 2000).

Root—1 to 3 g for decoction (API Vol. I).

Root bark 250 mg -650 mg (Kabiruddin, 2000). 9 grams (Ghani, ynm); 5-10 grams (Anonymous, 1992).

Stem bark—0.5 to 1 g powder (API Vol. III)

Identity, Purity and Strength

Foreign matter: Not more than 2 per cent

Total Ash: Not more than 21 per cent

Acid-insoluble Ash: Not more than 5 per cent

Alcohol-soluble extractive: Not less than 5 per cent

Water soluble extractive: Not less than 24 per cent (Anonymous, 2007)

CAUTION  (تنبیہ / خبردار) 

Calotropis Toxicity:-

The milky sap contains a complex mix of chemicals, some of which are steroidal heart poisons known as "cardiac aglycones". These belong to the same chemical family as similar ones found in foxgloves (Digitalis purpurea). The plant contains steroidal components that are the cause of its toxicity. In the case of the Calotropis glycosides, their names are calotropin, calotoxin, calactin, uscharidin and voruscharin.

References:-

  1. Britannica, The Editors of Encyclopaedia. "akund floss". Encyclopedia Britannica, 13 Aug. 2013, https://www.britannica.com/topic/akund-floss. Accessed 20 June 2023.
  2. https://www.aimilpharmaceuticals.com/herbs/aak/
  3. (Kirtikar and Basu, 2005
  4. Anonymous, 1992
  5. Ghulam, 2007
  6. Kabiruddin, 2000
  7. Nadkarni, 2007
  8. Ibn Baitar, 1999
  9. Najar, A. A., Ashaq, M., Bhat, N. A., Khare, S., Rather, A. A., Wani, A. A., & Jahangir, R. (2021). A Diagnostic approach for same looking plants for their Pharmacognosy value. Indian Journal of Science and Technology, 14(14), 1105-1115.
  10.  Baitar. Aljameul Mufradat al Adviawalaghzia (Urdu translation). Central Council for Research in Unani Medicine New Delhi. 1999; 3:275-276.
  11.  Kirtikar, Basu. Indian Medicinal Plants, 2nd edition, International Book Distributors, Dehradun. 2005; 3:1609-1611.
  12. Khan A. Muheet-e- azam, Mataba Nizamia. Kanpur. 1313; 1:105-106.
  13. Anonymous. The Useful Plants of India, Publications and Information Directorate, Council of Scientific and Industrial Research, New Delhi. 1992, 98:163.
  14. Khan MH. Makhzanul Advia Ma Tohfatul Momineen. 1273; 408-409:455-570.
  15. Khare CP. Indian Medicinal Plants an Illustrated Dictionary. Springer-Verlag Berlin/Heidelberg, 2007, 113-114.
  16. Nadkarni KM. The Indian Materia Medica. 3rd Edition. Popular Prakashan Pvt. Ltd. Mumbai. 2007; 2:242-246.
  17. Ghulam NM. Makhzan-e-Mufradat wa Murakkabat. Central Council for Research in Unani Medicine MHFW GOI. New Delhi, 2007, 32.
  18. Hakeem A. Bustan-ul-Mufredat, Idara Kitab-ul-Shifa. Dariya Ghanj, Delhi 110002, 2002, 63.
  19. Kabiruddin H. Makzanul Mufradat. Aijaz Publishing House, Delhi, 2000, 49-52.
  20. Ghulam NM. Makhzan-e-Mufradat wa Murakkabat. Central Council for Research in Unani Medicine MHFW GOI. New Delhi, 2007, 32.
  21. Dwivedi A, Chaturvedi Gupta A, Argal A. Medicinal utility of Calotropis procera (Ait.) R. Br International Journal of Pharmacy & Life Sciences. 2010, 188-190.
  22. Quazi S, Mathur K, Arora S. Calotropis procera: An Overview of its Phytochemistry and Pharmacology. Indian Journal of Drugs. 2013; 1(2):63-69.
  23. Sharma S. Chemoprotective activity of hydro ethanolic extract of Euphorbia neriifolia Linn leaves against DENA induced liver carcinogenesis in mice. Biol Med. 2011; 3:36-44.
  24.  Anonymous. The Unani Pharmacopoeia of India, Central Council for Research in Unani Medicine. New Delhi, 2007; 1(1):3-5.

Saturday, June 17, 2023

Dried Figs in Olive Oil – An Old Recipe For Health.

 صحت مند رہنے لیےایک قدیم نسخہ

خالص روغن زیتون اورانجیرخشک  کا مرکب کا بہترین مرکب 

An Old Recipe For Health...

Dried Figs in Extra Virgin Olive Oil –

By: Hakeem Muhammad Rizwan Arshad

Figs in extra virgin olive oil are a recipe that originates from the coastal areas, it’s an amazing natural & safe remedy for lots of health conditions, including:
  1. Stomach problems
  2. General Debility 
  3. Hemorrhoids
  4. Constipation
  5. High cholesterol
  6. Anemia
  7. Asthma
  8. Bronchitis
  9. Los Of Libido
  10. Sexual Weakness
  11. Impotency
  12. Infertility
It helps to achieve strong erection on intercourse
It is very useful remedy for males.
Some women say that this natural remedy helped get pregnant.
Reasons to use figs:-
Health benefits of this amazing fruit.
Figs are one of the highest plant sources of calcium which is an excellent alternative for the therapeutic treatment of people who are allergic to dairy products.
Fig fruit is rich in dietary fiber, because of this, they may have a laxative effect. And they’re effective in promoting weight loss too.
Figs are a great source of potassium, which helps to regulate blood pressure and other important bodily functions. Omega 3 and Omega 6 they contain help to maintain blood pressure and coronary heart attacks as well.
Dried figs are at the top of the dried fruit list for phenol antioxidant levels. One study found that eating just two medium dried figs caused a significant increase in antioxidant activity in the body.
Figs are alkaline producing, helping the body achieve and maintain a disease-free healthy life.
Fig is an effective remedy to increase sexual weakness. Soak 4-5 figs in milk overnight and eat in the morning to overcome weakness.
Figs have anti-aging properties, and they are especially good for treating acne. Apply mashed fresh figs all over your face and let it dry for 20 minutes, rinse with warm water.
According to a study, figs are able to cure kidney stones. Boil 6 figs in a cup of water. Consume this daily up to a month to remove kidney stones.
It’s well known that fig leaves can be consumed for anti-diabetic properties, they lower the amount of insulin required by diabetics.
You can relive constipation by consuming 2-3 soaked dried figs with a tablespoon of honey, keep using this for a month every morning.
Tryptophan in figs helps you get a good sleep and helps get rid of sleep disorders such as insomnia.
Figs contain a good amount of Vitamin C which helps to lighten and even out the skin tone. They are also loaded with anti-oxidants that gives you healthy and glowing skin.
Figs are high in vitamin B6, which has long been thought to be beneficial in treating morning sickness.
Recipe:-
Recipe for dried figs in olive oil.
A.    100 pieces high quality dried figs
B.    Extra Virgin Olive Oil
Put the dried figs in a jar and then pour extra virgin olive oil to the top of the jar.
Close it and keep for 40 days, during these days the figs will absorb a lot of olive oil.

Dosage:-
Eat two fig before breakfast and two figs at night with milk.