Translate

Search This Blog

Tuesday, November 12, 2013

ورم جگر/ ہیپاٹائٹس کا تاریخی پس منظر

تحریر: حکیم محمد رضوان ارشد 

ہیپاٹائٹس:-
    ہیپاٹائٹس انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ یہ دو یونانی الفاظ ہیپار (Hepar)    جسکے معنی جگر اور آئٹس (Itis) جسکے معنیٰ سوزش یا ورم کے ہیں سے مل کر بنا ہے۔ ہیپاٹائٹس کو اردو میں ورم جگر، جگر کی سوزش یا جگر کی سوجن اور عربی زبان میں التہاب الکبد، ورم الکبد کہا جاتا ہے۔ لفظ ہیپاٹائٹس کی جمع (Hepatitides) ہے۔ ویسے تو ورم جگر پیدا کرنے والے کئی عامل (Agents)اور وائرسز ہیں لیکن یہاں چند مخصوص جگر رخی یا کبد رخی (Hepatotropic) وائرسز اے سے جی(A to G) تک کا ذکر کیا جائے گا۔ اسے وائرسی ورم جگر (Viral Hepatitis) کہتے ہیں.

تاریخی پس منظر (Historical Background):-
     وائرسی ورم جگر یا وائرل ہیپاٹائٹس کو میڈیکل آرٹس کے پیشہ ور طبیب عہد قدیم سے ہی جانتے تھے اور اس مرض سے آگاہ تھے زمانہ قدیم سے لیکر اب تک گذرنے والی نسلیں اس مرض سے متاثر ہوتی رہی ہیں۔ بابلی تا لموداوربقراط(Hippocrates)دونوں پچیس سو سال قبل اسکا حوالہ دیتے ہیں۔مغربی یورپ میں اسکا بہت ابتدائی ریکارڈ ایک خط میں ہے جو پوپ ذیکارئیس نے 751AD میں مینز کے لاٹ پادر، سینٹ بونیفیس کو لکھا تھا۔ اب تک ہیپاٹائٹس کی وباؤں کے لاتعداد واقعات بیان ہو چکے ہیں خاص طور پر جنگوں کے دوران اور جنگوں و جدل کے وقائع ہی ہمیں اسکا گذرے ہوئے سالوں میں یاد دلاتے ہیں۔ عہد قدیم سے جدید دور تک عسکری مہمات کے دوران یرقان (Jaundice)کی ریکارڈ کی گئی وبائیں تقریباً شک و شبہ کے بغیر ہیپاٹائٹس اے وائرس (HAV)کی وجہ سے تھیں۔ امریکن سول وار، فرانکوپروشین وار اور پہلی جنگ عظیم میں اس کی بہت بڑی وبائیں خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور اٹلی میں ظاہر ہوئیں۔

انسانی سیرم سے ہیپاٹائٹس کی تندرست اجسام میں منتقلی:-
    انسانی مصل دموی /سیرم (Human Serum) کے ساتھ بذریعہ تلقیع یا ٹیکا کاری (Injection/Inoculation) سے ہیپاٹائٹس کی تندرست اجسام میں منتقلی کے تاریخی شواہد انیسویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت جب جرمنی میں ایک جہاز گاہ میں کام کرنے والوں نے چیچک (Small Pox) کے خلاف ویکسی نیشن کروانے کے بعد یرقان میں مبتلا ہوئے۔ چیچک کے خلاف بنائی گئی ویکسین انسانی لمف (Human Lymph)پر مشتمل تھی۔

جنگ عظیم دوئم اور اس کے بعد اس مرض پر زیادہ تحقیقیات کا سلسلہ شروع ہوا اور انسان میں ہیپاٹائٹس پیدا ہونے یا منتقل ہونے کے دو قطعی اور مختلف طریقے سمجھ میں آئے ایک بذریعہ مصل د موی یا بذریعہ سیرم (Serum)اور دوسرا  طریقہ متعدی (Infectious)تھا۔ متعدی قسم وباؤں کی صورت میں پھیلتی تھی اور دوسری قسم سیرم (Serum)ہیپاٹائٹس بذریعہ جلد یا غیر امعائی راستوں (Parenterally)پھیلتی تھی۔ خاص طور پر انتقال خون یا آلودہ سوئیوں سے ٹیکے لگانے سے (ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس ای، انفیکشن ہیپاٹائٹس کی اقسام ہیں اور ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی اور ہیپاٹائٹس ڈی، سیرم ہیپاٹائٹس کی اقسام ہیں انہیں سیرم ہیپاٹائٹس بھی کہتے ہیں)۔

 1960ء میں آسٹریلیا کے ایک مقامی باشندے کے خون سے ایک جسم اجنبی یا اینٹی جن (اسٹریلیا اینٹی جن) دریافت ہوئی۔اس اینٹی جن کی دریافت ڈاکٹر بلمبرگ نے کی بعد میں اس ذرے کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ ایک وائرسی زرہ ہے اس وائرس کا جو جلد /غیر امعائی (Parenterally) انسانی جسم میں داخل ہو کر ہیپاٹائٹس یا ورم جگر پیدا کرتا ہے۔ اسٹریلیا اینٹی جن کی دریافت سیدھی ہیپاٹائٹس بی وائرس (HBV)کی شناخت کی طرف لے گئی اور (HBV) کی شناخت کا ایک ذریعہ بنی۔ 1960ء میں نامور طبیب اور عظیم مصنف حکیم محمد شریف جامعی نے اپنی مرضیات کی ضخیم ترین کتاب ماہیت الامراض (Pathology)کی جلد دوم میں ہیپاٹائٹس اے جسے پہلے ورم جگر ساریہ/ انفیکٹیو ہیپاٹائٹس (Infective Hepatitis)کہتے تھے اور ہیپاٹائٹس بی اسے پہلے ورم جگر مماثل سیرمی / سیرم ہومو لوگس ہیپاٹائٹس (Serum Homologous Hepatitis) کہتے تھے کے بارے میں جدید نقطہ نظر بیان کیا ہیپاٹائٹس اے پر کافی تفصیل لکھی جبکہ ہیپاٹائٹس بی پر اس دور میں کم معلومات ہونے کی وجہ سے مختصر مگر جامع معلومات مہیا کیں جو کہ اس مرض کو سمجھنے کے لئے مفید اور بہترین معلومات تھیں۔ ہیپاٹائٹس بی وائرس کی دریافت کے بعد ہیپاٹائٹس اے وائرس (HAV) مناعتی طریقوں (Immunological Techniques) اور الیکٹران مائیکرو سکوپی سے شناخت کیا گیا۔

اس کے کچھ بعد مزید یہ واضح ہو گیا کہ ہیپاٹائٹس بی وائرس پر مشتمل یا آلودہ خون کو اور ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کو اگر خارج کر دیا جائے تو بھی صحت مند افراد میں بعد انتقال خون (Post-Transfusion) ہیپاٹائٹس کا نہ پیدا ہونا کوئی یقینی بات نہیں ہے۔ پھر بھی صحت مند افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہو جاتے ہیں یعنی ابھی کوئی اور وائرس بھی موجود ہے جو انسانی سیرم کے ذریعے صحت مند افراد میں داخل ہو کر ہیپاٹائٹس پیدا کرتا ہے۔آخر کار بعد انتقال خون پیدا ہونے والے ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی ایک بڑی اکثریت میں ایک وائرس شناخت کیا گیا اور اسے ہیپاٹائٹس سی وائرس (HCV)کا نام دیا گیا۔ آج خون کی سکریننگ (Screening)برائے ہیپاٹائٹس بی وائرس اور ہیپاٹائٹس سی وائرس (HBV & HCV) سے بعد انتقال خون پیدا ہونے والے ہیپاٹائٹس کے زیادہ خطرے کو خارج کر دیتی ہے۔

دیگر وائرسی مرض مثلاً ہیپاٹائٹس ای (Hep E) انتڑیوں کے راستے داخل ہو کر ترقی پذیر ممالک میں وباؤں کا سبب بنتا ہے۔ ہیپاٹائٹس جی وائرس (HGV)ہیپاٹائٹس سی وائرس کا رشتہ دار ہے۔ حروف تہجی کے مطابق ہیپاٹائٹس کی ترتیب بیسویں صدی کے آخر میں دی گئی اس لئے اب ہم ان وائرسی ایجنٹس کو نام دینے کے لئے انگریزی حروف تہجی A,B,C,D...G وغیرہ سے ترتیب دیتے یا(Abcedarian Scheme) کا سہارا لیتے ہیں۔
This article was written by Hakeem Muhammad Rizwan Arshadand it has been published in  Monthly Hakeem Haziq & different  Tibbi Magazines journals in Pakistan.

No comments:

Post a Comment